News Details

12/09/2024

وزیراعلیٰ خیبرپختونخواعلی امین خان گنڈا پور نے کہا ہے کہ وکلاءبرادری معاشرے کا ایک اہم طبقہ ہیں جن پر عدل وانصاف کی فراہمی جیسی اہم ترین ذمہ داری عائد ہوتی ہے،

وزیراعلیٰ خیبرپختونخواعلی امین خان گنڈا پور نے کہا ہے کہ وکلاءبرادری معاشرے کا ایک اہم طبقہ ہیں جن پر عدل وانصاف کی فراہمی جیسی اہم ترین ذمہ داری عائد ہوتی ہے، میرٹ، انصاف اور قانون کی بالادستی کسی بھی انسانی معاشرے کے لیے ناگزیر ہے کیونکہ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جہاں انصاف کا بول بالا ہو۔ کوئی بھی معاشرہ پرسکون و مطمئن تب ہوتا ہے جب افراد کو حق و انصاف کی فراہمی کا یقین ہو۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز بار ایسو سی ایشنز کی تقریب سے بحیثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ صوبائی وزیر قانون آفتا ب عالم ، سپیکر صوبائی اسمبلی بابر سلیم سواتی کے علاوہ اراکین صوبائی اسمبلی اور وکلاءنے تقریب میں شرکت کی۔ علی امین گنڈاپور نے وکلاءبرادری سے اپیل کی کہ وہ حق کا ساتھ دیں، انصاف اور میرٹ کے خلاف کسی کیس کا دفاع نہ کریں کیونکہ قانون کی حقیقی حکمرانی کے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔ وزیر اعلیٰ نے مزید کہا کہ ملک میں جزا و سزا کا منصفانہ نظام نہ ہونے کی وجہ سے بار بار آئین شکنی کی گئی جو بحثیت قوم ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ دین اسلام نے ہمیں ایک واضح راستہ اور جزا و سزا کا لائحہ عمل دیاجس کی پاسداری کے ذریعے ہی انصاف پر مبنی معاشرے کا قیام ممکن ہے۔ ہمارا دین ہمیں سچ بولنے،حق بات پر قائم رہنے اور ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا درس دیتا ہے۔ ہم نے ذاتی مفادات اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر انصاف اور قانون کی حکمرانی کے لیے جدوجہد جاری رکھنی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اگر ہم غلط کاموں اور غلط عناصر کی نشاندہی نہیں کریں گے تو اصلاح کا راستہ کیسے ہموار ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ دو قانون، دو نظام اور دو پاکستان نہیں چل سکتے۔ اگر ہم واقعی ہی قوم کو ترقی کی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں اور ایک خوشحال و پرامن معاشرے کے خواہاں ہیں تو ضروری ہے کہ سب کے لیے ایک جیسا قانون اور ایک نظام ہونا چاہیے جس میں کسی قسم کے ذاتی انتقام اور پسند و ناپسند کی گنجائش موجود نہ ہو۔وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ہم نے اس سلسلے کو ختم کرنا ہے اور خود سے شروع کرنا ہے اور اس ملک کو آگے لے کر جانا ہے۔ وزیر اعلیٰ نے واضح کیا کہ انہوں نے ہمیشہ حق، سچ اور انصاف کی بات کی ہے اور اداروں کو ذاتی انتقام لینے کے لیے استعمال کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ ہم نے یہ اپنے عمل سے ثابت کیا ہے اور صوبے میں حکومت میں آنے کے بعد کسی سے انتقام نہیں لیا اور نہ ہی صوبائی اداروں کو ذاتی انتقام کے لیے استعمال کیا۔ وزیر اعلیٰ نے مزید واضح کیا کہ ہم نفرتیں نہیں پیدا کرنا چاہتے کیونکہ اس کا نقصان ملک کو ہوتا ہے۔ تاہم اپنے حق، انصاف اور حقیقی آزادی کے لیے بات کرنا ترک نہیں کریں گے، آئین ہمیں اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنے حقوق کا دفاع کریں۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ اگر ہم قوم کو موجودہ بحرانوں سے نکال کر ترقی کی راہ پر ڈالنا چاہتے ہیں تو ہمیں فیصلہ کرنا ہو گا اور ترجیحات کا ازسر نو تعین کرنا ہو گا۔ ہمارے چیلنجز کچھ اور ہیں، اہداف کچھ اور ہونے چاہئیں مگر بدقسمتی سے ہم کسی اور چیز میں الجھے ہوئے ہیں۔ جب تک ہم اس صورتحال سے باہر نہیں آتے، آگے نہیں بڑھ سکتے۔وکلاءبرادری سے درخواست کروں گاکہ وہ ایسے کیسز کی پیروی نہ کریں جن کے بارے میں ان کو معلوم ہو کہ کیس انصاف پر مبنی نہیں کیونکہ وکلاءکا کام کیس لڑنا نہیں بلکہ انصاف دلانا ہے۔ بحیثیت وزیراعلیٰ اپنے سرکاری وکلاءسے کہوں گا کہ سرکاری کیس لڑتے ہوئے اگر ان کو معلوم ہو جائے کہ سرکار کا کیس انصاف پر مبنی نہیں اور اس سے کسی کی حق تلفی ہو رہی ہو تو ایسے کیسز اگر وہ ہار جائیں تو میں ان کو سلام پیش کروں گا، میں نہیں چاہتا کہ حکومت کے فائدے کے لئے کسی انسان کا حق چھینوں۔ سرکاری وکلاءکے لئے میں پالیسی دے رہا ہوں کہ وہ غلط چیز کی پیروی نہ کریں بلکہ حق جس طرف ہے اس کا ساتھ دیںاور نا انصافی نہ کریں۔آئین کی بالادستی اور قانون کی عملدراری ہمارا فرض ہے لیکن اس ملک میں بار بار آئین کو توڑا گیا اور آج تک کسی کو سزا نہیں ہوئی ۔ہم سب کو سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکرسوچنا ہوگا اور اگر ہم نے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر سوچناشروع کیا تو ہمارے 99 فیصد مسائل حل ہوجائیں گے۔علی امین نے کہا کہ لوگ کہتے ہیں کہ میرا لہجہ سخت ہے، ٹھیک ہے میں اپنا لہجہ نرم کرتا ہوں لیکن لہجہ نرم کرنے سے میرا نظریہ میری سوچ کبھی نہیں بدلے گا۔ میں بات دھیمے یا سخت لہجے میں کروں فرق نہیں پڑتا، میں اپنے حق کےلئے آواز اٹھاو ¿ں گا مجھے آزادی چاہیئے۔ کیونکہ میرے آباو ¿ اجداد نے اس آزادی کےلئے جانی و مالی قربانیاں دی ہےں۔ میں اپنی آزادی کیلئے سر کٹاو ¿ں گا لیکن جھکاو ¿ں گانہیں اور اپنی نسلوں کی آزادی پر سمجھوتہ نہیں کروں گا، میری آزادی کوئی مجھ سے نہیں چھین سکتا۔ اصلاح پر میں یقین رکھتا ہوں اگر آپ میں غلطی ہے تو آپ اصلاح کرلیں، اگر مجھ میں غلطی ہوگی تو میں اپنی اصلاح کےلئے تیار ہوں لیکن منافقت کےلئے تیار نہیں ہوں۔ آج ہم نے عہد کرنا ہے کہ ہم تمام ذاتی مفاد اور سیاسی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر آئین، اسلام اور انسانیت کے اصول پر عمل کی بات کریں اگر ایسا کریں گے تو ہم میں نہ کوئی غریب رہے گا نہ کمزور رہے گا۔ اور نہ کسی کو کسی کے ساتھ ذیادتی کرنے کی جرا ±ت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ صحافی ہم سے ہیں اور ہمارے بھائی ہیں وہ میری ذات پر کچھ بھی بول دیں خیر ہے لیکن جب میں کہتا ہوں کہ کچھ لوگ پاکستان کی بات نہیں کرتے، آئین کی پاسداری کی بات نہیں کرتے، ملک میں ہونے والی کرپشن پر بات نہیں کرتے تو پھر میرے پیچھے شروع ہو جاتے ہیں، جب میں نشاندہی نہیں کروں گا تو اصلاح کیسے ہوگی۔ اگر مجھ میں بھی کوئی غلطی ہے اور اس کی نشاندہی نہ کی جائے تو میں اپنی اصلاح کیسے کروں۔ علی امین کا کہنا تھا کہ ایک انسان ایک جرم کرے اور اس کو اس کی سزا ملے اور وہی جرم دوسرا کرے اسے سزا نہ ملے اگر یہ چیز قانون کی کسی بھی کتاب میں لکھی ہے تو مجھے دکھا ئی جائے، اگر نہیں تو یہ دو نظام نہیں چل سکتے۔ آج میرا لیڈر توشہ خانہ کیس میں اندر ہے اس میں انہوں نے قانونی طریقے سے چیز لی ہے او رجنہوں نے غیر قانونی طریقے سے چیزیں لی ہیں وہ اقتدار میں بیٹھے ہیں ، یہ افسوس کی بات ہے۔ بدقسمتی سے نیب احتساب کےلئے نہیں بلکہ انتقامی کاروائی کےلئے بنی ہے۔ وزیراعلیٰ کا کہنا تھا میں سیکیورٹی فورسز اور پولیس کے ان تمام جوانوں اور افسروں کو سلام پیش کرتا ہوں جو ایسی جگہوں پر اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دے رہے ہیں جہاں انہیں اگلے لمحے کا نہیں پتہ کہ وہ زندہ بھی رہیں گے یا نہیں، میں تمام شہداءاور ان کے اہلخانہ کو سلام پیش کرتا ہوں لیکن وہ غلط پالیسیوں کی وجہ سے بدنام ہورہے ہیں۔ میرے جوانوں کا اور لوگوں کا خون بہہ رہا ہے کسی کو پرواہ ہی نہیں میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ امن کےلئے پڑوسی ملک سے بات چیت کی جائے لیکن کوئی پرواہ نہیں کرتا ۔ میں بحیثیت وزیراعلیٰ وفد بھیج کر ان سے بات کروں گا اور بات کرکے مسئلہ حل کروں گا کیونکہ میں مزید اپنے لوگوں کا خون بہنے نہیں دوں گا، میں ا س پر سمجھوتہ نہیں کروں گا۔ علی امین کا کہنا تھا کہ اگر کسی کی کوشش ہے کہ میں اسلام آباد نہیں جا سکوں گا، پنجاب، سندھ یا بلوچستان نہیں جا سکوں گا تو پھر کوئی بھی یہاں نہیں آسکتا۔ آج میں اپنے لیڈر عمران خان کو پیغام دے رہا ہوں کہ آپ نے ہمیں جو نظریہ دیا ہے ہم اس پر کھڑے ہیں اور اس نظرئیے سے نہ ہمیں کوئی ہٹا سکتا ہے اور نہ جھکا سکتا ہے۔ میں اداروں سے درخواست کرتا ہوں کہ اپنی اصلاح کرو، آپ کی اصلاح میں قوم کا فائدہ ہے ، پاکستان کا فائدہ اور آپ کا اپنا فائدہ ہے۔ آو ¿ بیٹھ کر بات کرتے ہیں اور ملک کو بحرانوں سے نکالتے ہیں کیونکہ سیاست اور نظریہ سب کا اپنا اپنا ہے لیکن یہ ملک ہم سب کا ہے۔